Skip to main content

Posts

مجھے مار دیجیے

‎کافر ہوں، سر پھرا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎میں سوچنے لگا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎ہے احترامِ حضرتِ انسان میرا دیں ‎بے دین ہو گیا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا ‎میں حد سے بڑھ گیا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎کرتا ہوں اہلِ جبہ و دستار سے سوال ‎گستاخ ہو گیا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎خوشبو سے میرا ربط ہے، جگنو سے میرا کام ‎کتنا بھٹک گیا ہوں! مجھے مار دیجیے ‎معلوم ہے مجھے کہ بڑا جرم ہے یہ کام ‎میں خواب دیکھتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎زاہد، یہ زہد و تقویٰ و پرہیز کی روش ‎میں خوب جانتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎بے دین ہوں، مگر ہیں زمانے میں جتنے دین ‎میں سب کو مانتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہُو کا شور ‎میں آخری صدا ہُوں، مجھے مار دیجیے ‎میں ٹھیک سوچتا ہوں، کوئی حد مرے لیے ‎میں صاف دیکھتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎یہ ظلم ہے کہ ظلم کو کہتا ہوں صاف ظلم ‎کیا ظلم کر رہا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎میں عشق ہوں، میں امن ہوں، میں علم ہوں، میں خواب ‎اک درد لادوا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎زندہ رہا تو کرتا رہوں گا ہمیشہ پیار ‎میں صاف کہہ رہا ہوں مجھے مار دیجیے ‎جو زخم بانٹتے ہیں، انہیں زیست پہ ہے ...

وہ تری طرح کوئی تھی

وہ تری طرح کوئی تھی یونہی دوش پر سنبھالے گھنی زلف کے دوشالے وہی سانولی سی رنگت وہی نین نیند والے وہی من پسند قامت وہی خوشنما سراپا جو بدن میں نیم خوابی تو لہو میں رتجگا سا کبھی پیاس کا سمندر کبھی آس کا جزیرہ وہی مہربان لہجہ وہی میزباں وطیرہ تجھے شاعری سے رغبت اسے شعر یاد میرے وہی اس کے بھی قرینے جو ہیں خاص وصف تیرے کسی اور ہی سفر میں سرِ راہ مل گئی تھی تجھے اور کیا بتاؤں وہ تری طرح کوئی تھی کسی شہرِ بے اماں میں میں وطن بدر اکیلا کبھی موت کا سفر تھا کبھی زندگی سے کھیلا مرا جسم جل رہا تھا وہ گھٹا کا سائباں تھی میں رفاقتوں کا مارا وہ مری مزاج داں تھی مجھے دل سے اس نے پوجا اسے جاں سے میں نے چاہا اسی ہمرہی میں آخر کہیں آ گیا دوراہا یہاں گمرہی کا امکاں اسے رنگ و بو کا لپکا یہاں لغزشوں کا ساماں اسے خواہشوں نے تھپکا یہاں دام تھے ہزاروں یہاں ہر طرف قفس تھے کہیں زر زمیں کا دلدل کہیں جال تھے ہوس کے وہ فضا کی فاختہ تھی وہ ہوا کی راج پُتری کسی گھاٹ کو نہ دیکھا کسی جھیل پر نہ اتری پھر اک ایسی شام آئی کہ وہ شام آخری تھی کوئی زلزلہ سا آیا کوئی برق سی گِری تھی عجب آندھیاں چلیں پھر کہ بکھر گئے دل و جاں ...

The Greatest Disaster of Our Life

The greatest disaster of our life is that it is multipurpose. Man today does and wishes to do a thousand things at the same time. His many and varied interests have destabilized him temperamentally. Today's man is living a computer's life. Passing continually through the mechanical process, he has become part of a machine __ emotionless, feelingless, loveless, and faithless. He is neither grieved by grief nor is pleased by pleasure. The tragedy today is that tragedy has died. Man has no time to wail over catastrophe. In today's life there is neither elegy nor eulogy. Man is living several lives and consequently, is dying several deaths. It is only a multipurpose life which is reduced to a purposeless life. A friend of all is a friend of none. Dissociating with all, he is left unrelated to himself. Only his human form stays, but qualities have all undergone changes. What has happened to man? Perhaps man has died in some accident and what now lives is his ghost. (Wasif Ali Wa...

Best Deed / بہترین عمل

Best Deed! 🔸عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‌‌‏قَالَ:‏  ☪قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏     أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ، ‌‌‏وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، ‌‌‏وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ ، ‌‌‏قَالُوا:‏ بَلَى، ‌‌‏قَالَ:‏ ذِكْرُ اللَّهِ تَعَالَى     قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏ مَا شَيْءٌ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏ وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ مِثْلَ هَذَا بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْهُ فَأَرْسَلَهُ. 📚الترمذی،٣٣٧٧                •─────✧─────• Translations: 🔸ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  ☪رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  ❓”کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزد...

The Battle of 'Ain Jaloot (عین جالوت)

After Baghdad and the Levant countries fell into the hands of the Mongols, they began to move to capture Egypt as part of their plan to penetrate from the far east of Asia to northern Asia and Europe.  Hulagu sent a threat message with 4 messengers from the Mongols to Seif al-Din Qutuz saying: "Our horses are swift, our arrows sharp, our swords like thunderbolts, our hearts as hard as the mountains, our soldiers as many as the sand. Fortresses will not detain us, nor arms stop us. Your prayers to God will not avail against us. We are not moved by tears nor touched by lamentations. Only those who beg our protection will be safe. Hasten your reply before the fire of war is kindled."  Qutuz held an emergency meeting with his leaders to discuss a response to the threat letter. But when he saw his leaders hesitant, he made his statement: “Oh, Muslim leaders, for some time now you have been fed by the country treasury, and you are haters of invasion. I am heading alone, so whoever ...

نعتِ رسولِ کریم خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم

آنکھ کا روزن بند کریں اور دل کا دریچہ باز کریں یادِ نبی میں آؤ ہم بھی نعتِ نبی آغاز کریں سب سے اعلیٰ، سب سے بالا ان کے نور کا جھالا ہے اس اِجلالِ نور سے پیدا ہم بھی سوز و ساز کریں پورے شہرِ وجود میں گونجے نامِ محمد صل علیٰ روح کے گنبد میں اک لمحہ پیدا یہ آواز کریں ہم بھی آپ کی امت میں ہیں، ہم بھی آپ سے بیعت ہیں اس خوش اقبالی پر اُتنا کم ہے جِتنا ناز کریں آنکھیں سبز ہرے گنبد کی روز تلاوت کرتی ہیں ہم کو اذنِ حضوری دے کر حضرت اور اعزاز کریں آپ کے نقشِ کفِ پا سے جو بستی مایہ دار ہوئی ہم بھی اس میں سر کے بل چل کر سر کو افراز کریں فہرستِ خُدّام میں بے شک سب سے نچلا درجہ دیں لیکن ہم کو پاس بلا کر مستقلاً ممتاز کریں (ڈاکٹر تحسین فراقی)