وہ تری طرح کوئی تھی
یونہی دوش پر سنبھالے
گھنی زلف کے دوشالے
وہی سانولی سی رنگت
وہی نین نیند والے
وہی من پسند قامت
وہی خوشنما سراپا
جو بدن میں نیم خوابی
تو لہو میں رتجگا سا
کبھی پیاس کا سمندر
کبھی آس کا جزیرہ
وہی مہربان لہجہ
وہی میزباں وطیرہ
تجھے شاعری سے رغبت
اسے شعر یاد میرے
وہی اس کے بھی قرینے
جو ہیں خاص وصف تیرے
کسی اور ہی سفر میں
سرِ راہ مل گئی تھی
تجھے اور کیا بتاؤں
وہ تری طرح کوئی تھی
کسی شہرِ بے اماں میں
میں وطن بدر اکیلا
کبھی موت کا سفر تھا
کبھی زندگی سے کھیلا
مرا جسم جل رہا تھا
وہ گھٹا کا سائباں تھی
میں رفاقتوں کا مارا
وہ مری مزاج داں تھی
مجھے دل سے اس نے پوجا
اسے جاں سے میں نے چاہا
اسی ہمرہی میں آخر
کہیں آ گیا دوراہا
یہاں گمرہی کا امکاں
اسے رنگ و بو کا لپکا
یہاں لغزشوں کا ساماں
اسے خواہشوں نے تھپکا
یہاں دام تھے ہزاروں
یہاں ہر طرف قفس تھے
کہیں زر زمیں کا دلدل
کہیں جال تھے ہوس کے
وہ فضا کی فاختہ تھی
وہ ہوا کی راج پُتری
کسی گھاٹ کو نہ دیکھا
کسی جھیل پر نہ اتری
پھر اک ایسی شام آئی
کہ وہ شام آخری تھی
کوئی زلزلہ سا آیا
کوئی برق سی گِری تھی
عجب آندھیاں چلیں پھر
کہ بکھر گئے دل و جاں
نہ کہیں گلِ وفا تھا
نہ چراغِ عہد و پیماں
وہ جہاز اتر گیا تھا
یہ جہاز اتر رہا ہے
تری آنکھ میں ہیں آنسو
مرا دل بکھر رہا ہے
تو جہاں مجھے ملی ہے
وہ یہیں جدا ہوئی تھی
تجھے اور کیا بتاؤں
وہ تری طرح کوئی تھی!!
(احمد فراز)
Comments
Post a Comment