Skip to main content

Posts

via Instagram

تُو قرآن نہیں پڑھتا نہ پڑھ، سائنس تو پڑھ

تُو قران نہیں پڑھتا ۔ نہ پڑھ ۔ سائنس تو پڑھ تحریر : محمّد سلیم سب سے پہلے تو اپنا ایک دعویٰ خود غور سے پڑھ لیں کہ "سائنس میں جتنی بھی باتیں کی جاتی ہیں، حقائق بیاں کیے جاتے ہیں یا تجربات کیے جاتے ہیں وہ سب کے سب ریپروڈیوسیبل ہیں۔ یعنی ان کو بار بار کوئی بھی انسان دوہرا کر اپنی تسلی کر سکتا ہے۔ مذہبی کتابوں کی باتوں میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔" اس دعوے پر تو میں آپ کو تمام سائنس دانوں سمیت گھر تک چھوڑ آؤں گا ۔ اس پر آپ کو پوسٹ کے آخر میں امتحان میں ڈالتا ہوں ۔ پہلے پوسٹ پر بات کرتے ہیں ۔ پوسٹ میں آپ کے تقریباً چار اعتراضات ہیں ۔ 1 ۔ آگ انسان کے جسم کو جلا دیتی ہے جبکہ قران کے مطابق ابراہیم علیہ السلام کے لیئے وہی آگ سلامتی بن گئی ؟ 2 ۔ مچھلی کے پیٹ میں انسان زندہ نہیں رہ سکتا جبکہ یونس علیہ السلام تین دن اور تین راتیں مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے ؟ 3 ۔ انسانوں میں عورت کے ایگ اور مرد کے اسپرم ملنے سے زائگوٹ بنتا ہے اور بچہ پیدا ہوتا ہے جبکہ قران کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہو گئے ؟ 4 ۔ قران کہتا ہے کہ پہاڑ میخوں کی طرح گاڑے گئے ہیں تاکہ یہ تمہیں لے کر ڈول نہ جائے ۔ س...

Don't be just a memory! 😥

via IFTTT

Belles-lettres

“I want to melt into you, to be so terribly close to you that my own self disappears.” — Anaïs Nin to June Miller, c. February 1932 Photography: Kirill Shalaev

Leisure by William Henry Davies

Leisure by William Henry Davies WHAT is this life if, full of care, We have no time to stand and stare?— No time to stand beneath the boughs, And stare as long as sheep and cows: No time to see, when woods we pass, Where squirrels hide their nuts in grass: No time to see, in broad daylight, Streams full of stars, like skies at night: No time to turn at Beauty's glance, And watch her feet, how they can dance: No time to wait till her mouth can Enrich that smile her eyes began? A poor life this if, full of care, We have no time to stand and stare.

مجھے مار دیجیے

‎کافر ہوں، سر پھرا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎میں سوچنے لگا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎ہے احترامِ حضرتِ انسان میرا دیں ‎بے دین ہو گیا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا ‎میں حد سے بڑھ گیا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎کرتا ہوں اہلِ جبہ و دستار سے سوال ‎گستاخ ہو گیا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎خوشبو سے میرا ربط ہے، جگنو سے میرا کام ‎کتنا بھٹک گیا ہوں! مجھے مار دیجیے ‎معلوم ہے مجھے کہ بڑا جرم ہے یہ کام ‎میں خواب دیکھتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎زاہد، یہ زہد و تقویٰ و پرہیز کی روش ‎میں خوب جانتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎بے دین ہوں، مگر ہیں زمانے میں جتنے دین ‎میں سب کو مانتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہُو کا شور ‎میں آخری صدا ہُوں، مجھے مار دیجیے ‎میں ٹھیک سوچتا ہوں، کوئی حد مرے لیے ‎میں صاف دیکھتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎یہ ظلم ہے کہ ظلم کو کہتا ہوں صاف ظلم ‎کیا ظلم کر رہا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎میں عشق ہوں، میں امن ہوں، میں علم ہوں، میں خواب ‎اک درد لادوا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎زندہ رہا تو کرتا رہوں گا ہمیشہ پیار ‎میں صاف کہہ رہا ہوں مجھے مار دیجیے ‎جو زخم بانٹتے ہیں، انہیں زیست پہ ہے ...

وہ تری طرح کوئی تھی

وہ تری طرح کوئی تھی یونہی دوش پر سنبھالے گھنی زلف کے دوشالے وہی سانولی سی رنگت وہی نین نیند والے وہی من پسند قامت وہی خوشنما سراپا جو بدن میں نیم خوابی تو لہو میں رتجگا سا کبھی پیاس کا سمندر کبھی آس کا جزیرہ وہی مہربان لہجہ وہی میزباں وطیرہ تجھے شاعری سے رغبت اسے شعر یاد میرے وہی اس کے بھی قرینے جو ہیں خاص وصف تیرے کسی اور ہی سفر میں سرِ راہ مل گئی تھی تجھے اور کیا بتاؤں وہ تری طرح کوئی تھی کسی شہرِ بے اماں میں میں وطن بدر اکیلا کبھی موت کا سفر تھا کبھی زندگی سے کھیلا مرا جسم جل رہا تھا وہ گھٹا کا سائباں تھی میں رفاقتوں کا مارا وہ مری مزاج داں تھی مجھے دل سے اس نے پوجا اسے جاں سے میں نے چاہا اسی ہمرہی میں آخر کہیں آ گیا دوراہا یہاں گمرہی کا امکاں اسے رنگ و بو کا لپکا یہاں لغزشوں کا ساماں اسے خواہشوں نے تھپکا یہاں دام تھے ہزاروں یہاں ہر طرف قفس تھے کہیں زر زمیں کا دلدل کہیں جال تھے ہوس کے وہ فضا کی فاختہ تھی وہ ہوا کی راج پُتری کسی گھاٹ کو نہ دیکھا کسی جھیل پر نہ اتری پھر اک ایسی شام آئی کہ وہ شام آخری تھی کوئی زلزلہ سا آیا کوئی برق سی گِری تھی عجب آندھیاں چلیں پھر کہ بکھر گئے دل و جاں ...