Skip to main content

تُو قرآن نہیں پڑھتا نہ پڑھ، سائنس تو پڑھ

تُو قران نہیں پڑھتا ۔ نہ پڑھ ۔ سائنس تو پڑھ

تحریر : محمّد سلیم

سب سے پہلے تو اپنا ایک دعویٰ خود غور سے پڑھ لیں کہ
"سائنس میں جتنی بھی باتیں کی جاتی ہیں، حقائق بیاں کیے جاتے ہیں یا تجربات کیے جاتے ہیں وہ سب کے سب ریپروڈیوسیبل ہیں۔ یعنی ان کو بار بار کوئی بھی انسان دوہرا کر اپنی تسلی کر سکتا ہے۔ مذہبی کتابوں کی باتوں میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔"
اس دعوے پر تو میں آپ کو تمام سائنس دانوں سمیت گھر تک چھوڑ آؤں گا ۔ اس پر آپ کو پوسٹ کے آخر میں امتحان میں ڈالتا ہوں ۔ پہلے پوسٹ پر بات کرتے ہیں ۔
پوسٹ میں آپ کے تقریباً چار اعتراضات ہیں ۔
1 ۔ آگ انسان کے جسم کو جلا دیتی ہے جبکہ قران کے مطابق ابراہیم علیہ السلام کے لیئے وہی آگ سلامتی بن گئی ؟
2 ۔ مچھلی کے پیٹ میں انسان زندہ نہیں رہ سکتا جبکہ یونس علیہ السلام تین دن اور تین راتیں مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے ؟
3 ۔ انسانوں میں عورت کے ایگ اور مرد کے اسپرم ملنے سے زائگوٹ بنتا ہے اور بچہ پیدا ہوتا ہے جبکہ قران کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہو گئے ؟
4 ۔ قران کہتا ہے کہ پہاڑ میخوں کی طرح گاڑے گئے ہیں تاکہ یہ تمہیں لے کر ڈول نہ جائے ۔ سو آپ کو لگا کہ قران نے پہاڑ گاڑ کر زمین کے زلزلہ پروف ہو جانے کا دعویٰ کر دیا ہے ؟
جواب ۔
سب سے پہلے پہاڑوں کی بات کر لیتے ہیں کیوں آپ کی پوسٹ میں سائنسی نکتہ بس یہی ہے ۔ پھر باقی تین معجزات پر اعتراض کے حوالے سے بات کریں گے کہ کیا یہ معجزات سائنس کی نظر میں ناممکن ہیں ؟ پھر کچھ سائنسی معجزات بیان کر کے آپ سے ان کو ری پروڈیوس بھی کروا کر دیکھتے ہیں ۔
پہاڑوں سے متعلق جو پورا اعتراض ہے وہ اس بات پر کھڑا ہے کہ جب قران کہتا ہے کہ پہاڑ میخوں کی طرح گاڑے گئے ہیں تاکہ زمین تمہیں لے کر ڈول نہ جائے تو اس سے مراد یہ ہے کہ پہاڑ زلزلوں سے بچانے کے لیئے ہیں ۔
آپ کی یہ تشریح ہی غلط اور خودساختہ ہے ۔ قران کسی بھی مقام پر پہاڑوں کو زلزلوں سے بچانے کا موجب قرار نہیں دیتے ۔
"زمین تمہیں لے کر ڈول نہ جائے ۔"
اس جملے سے آپ نے ازخود یہ اخذ کر لیا کہ زمین کسی اور چیز کے ساتھ ٹھکی ہوئی ہے اور اس میں پہاڑوں نے میخوں کا کردار ادا کیا ہے ۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ زمین تو خلا میں گردش کر رہی ہے ۔ تو قران معاذاللہ غلط ہے ؟
آپ قران کی کہی باتوں کو اپنی مرضی کے معنی پہنا کر جیسا مرضی سوچ سکتے ہیں ۔ آپ یہ بھی سوچ سکتے تھے کہ ایک کیلنڈر کو دیوار سے لٹکانے کے لیئے دیوار میں کیل ٹھونکی جاتی ہے سو یہاں بھی یہی مراد ہے کہ زمین کو پہاڑ نامی میخوں کے ذریعے ٹھونک کر کسی دیوار پر ٹنگایا گیا ہے ۔ آپ نے یہ نہیں سوچا تو آپ کی بڑی مہربانی ۔
اگر اپنی ذاتی سوچ و تشریح سے باہر نکل کر حقیقی سائنس کی بات کریں تو اندازہ ہو گا کہ یہاں پہاڑوں کو میخوں کی طرح ٹھونک کر کسی اور جسم سے باندھنے کی بات ہی نہیں کی گئی ۔ نہ ہی کسی زلزلے سے بچاؤ کا انتظام کیا گیا ہے ۔ بلکہ سائنس ہی کے مطابق پہاڑ کی شکل من و عن وہی بیان کی جاتی ہے جس کی مثال قران نے بطور میخ دی ہے ۔ یعنی سائنس کے مطابق بھی پہاڑ کسی Nail head کی طرح اوپر سے بس تھوڑے سے نظر آتے ہیں جبکہ ان کی جڑیں زمین میں بہت اندر تک ہوتی ہیں ۔ بالکل ایک میخ کی طرح ۔
اب ایسا کیوں ہوتا ہے یہ سائنس کو نہیں پتہ ۔ قران اس کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ کہیں یہ تمہیں لے کر ڈول نہ جائے ۔ اب اس وجہ کو آپ سائنٹیفکلی کیسے جھٹلائیں گے جبکہ سائنس کہے کہ ہمیں تو وجہ ہی نہیں پتہ ؟
ڈھیٹ ای فکلی (ڈھٹائی سے) جھٹلا سکتے ہیں ۔ سائنٹیفکلی نہیں جھٹلا سکتے ۔
یعنی قران کہتا ہے کہ پہاڑ زمین میں میخوں کی طرح گاڑے گئے ہیں ۔
سائنس بھی کہتی ہے کہ پہاڑ کا صرف اوپری کچھ حصہ باہر ہے باقی زیادہ جڑیں اندر ہوتی ہیں ۔
قران کہتا ہے کہ ایسا اس لیئے ہے کہ یہ تمہیں لے کر ڈول نہ جائے ۔
سائنس کہتی ہے کہ ایسا کیوں ہے یہ ہمیں نہیں پتہ ۔

تو اب ایسی صورت میں آپ قران کو سائنس سے ٹیسٹ کر کیسے سکتے ہیں جبکہ قران آپ کو پہاڑوں کے میخوں کی طرح گڑے ہونے کی بات چودہ سو سال پہلے بتا چکا ہے اور سائنس نے آپ کو یہ بات صرف سو سال پہلے بتائی ؟
قران وجہ بھی ساتھ بتا رہا ہے جبکہ سائنس ابھی تک وجہ سے لاعلم ہے ۔
اس بات کو جان لیجیئے کہ سائنس کسی مشین یا مکینیزم کا نام نہیں جو سب کچھ ٹھیک ٹھیک بتائے ۔ سائنس صرف انسانی عقل کی پختگی کا نام ہے ۔
مثال کے طور پر آج سے پانچ سو سال پہلے زمین کائنات کا مرکز تھی اور سورج سمیت تمام باقی اجسام اس کا طواف کیا کرتے تھے ۔
وہ بھی سائنس تھی جو تمام اجسام کو زمین کے گرد گھما رہی تھی ۔ آج یہ بھی وہی سائنس ہے جو تمام اجسام کو سورج کے گرد گھما رہی ہے ۔
بہت کچھ سیکھ لیا تو بہت اچھی بات ہے ۔
لیکن اگر سوچ یہ ہے کہ سب کچھ سیکھ لیا ۔ اب کچھ سیکھنا باقی نہیں رہا تو بہت بری بات ہے ۔
ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے ۔
سائنس کہتی ہے کہ زمین کی چار تہیں ہیں ۔
1 ۔ Inner core
2 ۔ Outer core
3 ۔ Mantle
4 ۔ Crust
ان میں چوتھی اور سب سے باریک تہہ کرسٹ ہے جس پر ہمارے پیر پڑتے ہیں ۔ زمین کی یہ تہہ "سائنس کے مطابق" سیب کے چھلکے کی مانند پتلی ہوتی ہے جس کی موٹائی زیادہ سے زیادہ 35 کلو میٹر تک ہوتی ہے ۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Continental_crust

جب کہ پہاڑوں کی گہرائی صرف کرسٹ تک نہیں ہوتی بلکہ زمین کی دوسری تہہ مینٹل تک جاتی ہے ۔
http://geoscience.wisc.edu/~chuck/Classes/Mtn_and_Plates/mtn_roots.html

پہاڑوں کی گہرائی مینٹل تک کیوں ہوتی ہے it is yet to be found by science.
سائنس کو ابھی پتہ نہیں ہے ۔ جب پتہ چل جائے ۔ تب آجانا ۔ اعتراض کرنا کہ سائنس نے تو کوئی اور وجہ بتا دی ہے قران نے کچھ اور ۔ تب بات ہو سکتی ہے ۔ فی الحال معاملہ یہ ہے کہ قران وجہ بتا رہا ہے اور سائنس وجہ نہیں بتا رہی ۔
اتنے سے علم پر دعویٰ نہیں بنتا بھائی ۔
میں چاہوں تو "زمین تمہیں لے کر ڈول نہ جائے" کی کئی وضاحتیں پیش کر سکتا ہوں ۔ لیکن مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ سائنس کو پہاڑوں کی اتنی گہری جڑوں کی وجہ نہیں معلوم ۔ یعنی قران تو وجہ بتا رہا ہے ۔ لیکن مقابلے میں کوئی دوسری وجہ موجود ہی نہیں ۔
یہ معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کے سر پر کتنے بال ہیں تو میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں جواب دوں گا کہ ایک لاکھ بائیس ہزار تین سو نوے ۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ جھٹلانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں ۔ کیوں کہ آپ کو خود بھی نہیں پتہ ۔ تو منطقی طور پر آپ ایسی کسی بات کو جھٹلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے جس کا علم خود آپ کو نہ ہو ۔
آگے چلیں کہ پہاڑ جگہ بدلتے ہیں ۔
اب یہاں سوچنے والا نکتہ یہ ہے کہ اگر پہاڑ سے وہی مراد ہے جو آپ نے لی ہے یعنی ایک مٹی کا بڑا ڈھیر کہ جب ہوا بدلی تو اڑ کر کہیں اور چلا گیا تو پھر پہاڑوں کی گہرائی سے کیا مراد ہے ؟
گویا اعتراض کرنے والا یوں سمجھتا ہے کہ پہاڑ کے اپنا مقام بدلنے سے مراد یہ ہے کہ ہوا چلی اور پہاڑ کی مٹی اڑ کر کہیں اور جمع ہو گئی اور پرانا پہاڑ ختم ہو گیا نیا بن گیا ؟
مجھے بعض دفعہ اس مخلوق کے سوالوں کے جواب دیتے وقت غصہ آتا ہے کہ چلو تمہیں قران سمجھ نہیں آتا ۔ کوئی بات نہیں ۔ امی نے بچپن میں سپارہ پڑھنے نہیں بھیجا ہو گا ۔ او بھائی ! امی نے اسکول تو بھیجا تھا ؟
بیوقوفو ! ادھر سے کیا سیکھ کر نکلے ۔ تمہاری ماں سلائی مشین چلا چلا کر تمہاری فیسیں بھرتی رہی اور تم یہ سیکھ کر نکلے ہو ؟ ماں دا سِر ۔
یہ ٹھیک ہے کہ دنیا میں جہاں پہلے پہاڑ تھے وہاں آج نہیں ہیں اور جہاں آج ہیں وہاں کل نہیں ہوں گے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہاڑ وہاں پڑے پڑے بور ہوگئے تو اٹھ کر کہیں اور چلے گئے ۔ بلکہ سائنس کے مطابق پورا خطۂ زمین بدلتا ہے ۔ زمین کی ساخت بدلتی رہتی ہے ۔
او بھائی ! تُو قران نہیں پڑھتا نہ پڑھ ۔ سائنس تو پڑھ ۔
اب آجائیں معجزات پر ۔
سب سے پہلے تو معجزے کی تعریف سمجھ لیں ۔ معجزہ کہتے ہی اسے ہیں جسے سمجھنے سے عقل عاجز ہو جائے ۔ یعنی ایک طرح سے معجزہ سائنس کا متضاد ہے ۔ 
سائنس وہ علم ہے جو سمجھ میں آجائے اور معجزہ وہ علم ہے جو عقل میں نہ آئے ۔
اب آپ کا اعتراض یہ ہے کہ جو چیز میری عقل میں ہی نہیں آرہی اسے میں کیوں تسلیم کروں ؟
آپ سے کس نے کہا ہے تسلیم کرنے کو ؟ آپ نہ کریں تسلیم ۔ لیکن جو معجزے سائنس دکھا رہی ہے یعنی جن کے بارے میں آپ کا دعویٰ ہیں کہ "ری پروڈیوس ایبل" ہیں ان کا کیا کریں گے ؟
مثلاً
گوگل پر جائیں اور سرچ کریں کہ زمان و مکان یعنی وقت اور جگہ کب وجود میں آئے ؟
آپ کو جواب ملے گا کہ بگ بینگ کے ساتھ ہی زمان و مکان وجود میں آگئے ۔
اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس وقت بگ بینگ ہوا اس سے ایک لمحہ پہلے نہ تو وقت تھا نہ ہی جگہ ۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے جو سنگولیریٹی یا مادہ یا توانائی یا جو کچھ بھی موجود تھا وہ کہاں موجود تھا جبکہ جگہ موجود ہی نہیں تھی ؟
کیا آپ بغیر مکان کے مکین کا تصور رکھتے ہیں ؟
کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے ؟
اگر کرتی ہے تو "ری پروڈیوس" نہ کریں ۔ یہ نہ ہو پاوے گا آپ سے ۔ صرف وضاحت کر دیں ۔
اور اگر عقل تسلیم نہیں کرتی تو اسے سائنس کہیں گے یا معجزہ ؟
اس سے بہتر مذاہب کا نظریہ نہیں جو شروع سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے ؟
سائنس عدم سے کسی شے کے وجود کو نہیں مانتی لیکن بغیر جگہ کے مادے کے ہونے کا تصور رکھتی ہے جبکہ مادے کی تعریف ہی یہ ہے کہ وزن رکھتا ہے اور جگہ گھیرتا ہے ۔ جب وہ جگہ ہی بگ بینگ کے بعد وجود میں آرہی ہے جسے مادے نے گھیرنا ہے تو مادہ کہاں سے آگیا ؟
یہ ایسے ہی ہے کہ ایک شخص ایک گھنٹے سے جس کرسی پر بیٹھا ہے وہ کرسی آدھا گھنٹا پہلے وجود میں آئی ہے ۔ یہ فقرہ منطقی ہو کیسے سکتا ہے جبکہ اس میں اتنا بڑا تضاد موجود ہے ؟ اگر وہ شخص ایک گھنٹے سے کرسی پر بیٹھا ہے تو کرسی بھی ایک گھنٹے پہلے موجود ہونی چاہیئے اور اگر کرسی آدھا گھنٹا پہلے وجود میں آئی ہے تو وہ شخص آدھا گھنٹا پہلے کس چیز پر بیٹھا تھا ؟
سادہ سی بات ہے کہ بگ بینگ کے ساتھ زمان و مکان کا تصور بذات خود ایک معجزہ ہے ۔ اگر جگہ موجود نہیں تھی تو سمجھیں کچھ بھی نہیں تھا ۔ اور اگر کچھ بھی نہیں تھا تو کائنات کا وجود عدم سے ہی ہوتا نظر آتا ہے ۔
اب عدم سے کائنات کو وجود میں لانے کے لیئے آپ کو کسی سائنسدان کی نہیں بلکہ ایک خدا کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ جو کچھ بھی نہیں سے سب کچھ وجود میں لا سکتا ہے وہ خدا کے سوا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا ۔
اب ذرا پلڑے میں ڈالیں اپنے سوال کہ کیا وہی خدا ابراہیم علیہ السلام کے لیئے آگ کو سلامتی نہیں بنا سکتا ؟
کیا وہ خدا مچھلی کے پیٹ میں یونس علیہ السلام کو تین دن اور تین رات زندہ نہیں رکھ سکتا ؟
کیا وہ خدا کنواری بی بی مریم علیہ السلام کے ہاں بغیر کسی مرد کے عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا نہیں کر سکتا ؟
کیا زیادہ مشکل لگتا ہے آپ کو ؟
آپ پہلے کائنات کی تخلیق پر کچھ سائنسدانوں کی آراء پڑھ لیں پھر آپ کو کائنات کے خالق پر یہ اعتراضات خود بچکانہ لگنے لگیں گے ۔
ایک برطانوی سائنسدان ایڈمنڈ واٹیکر نے کائنات کے آغاذ کو خدا سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ :
"خدا کی ایما پر کائنات عدم سے وجود میں آئی ۔"
کاسمولوجی کے ماہرین اب اس بات پر یقین کرنے لگے ہیں کہ یہ عظیم دھماکہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی زندگی وجود میں آہی نہیں سکتی تھی اگر اس کا کوئی ڈیزائنر نہ ہوتا ۔ انہوں نے اب اس ڈیزائنر کے لئے "عظیم دماغ", "خالق" اور "زبردست ہستی" جیسے الفاظ کا استعمال شروع کر دیا ہے ۔
سائنسدانوں کے اس تغیر کی وجہ یہ ہے کہ اس کائنات کے آغاذ میں جتنی حیران کن باتیں ہیں اس سے زیادہ حیران کن اس کا زندگی کے آغاذ کے لئے موزوں ترین ہونا ہے ۔
فزکس کے ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ یہاں زندگی کا ہونا گریویٹی اور وہ تمام قوانین جو لاگو ہیں ان کا پیچیدگی کے انتہائی اعلیٰ معیار تک درست ہونا ضروری تھا ورنہ یہ کائنات بن ہی نہیں سکتی تھی ۔
مثال کے طور پر کیا آپ جانتے ہیں کہ کائنات کا نکتۂ پھیلاؤ معمولی سا کم ہوتا تو کیا ہو گا ؟
گریویٹی سارے مادے کو دوبارہ کھینچ کر اسی مقام تک پہنچا دیتی جہاں سے اس کا آغاذ ہوا ۔
ہم یہاں کائنات کے پھیلاؤ کو ایک یا دو فیصد کم کرنے کی بات نہیں کر رہے ۔
سنئیئے اگناسٹک سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کیا کہتے ہیں اس بابت :
"اگر کائنات کے نکتۂ پھیلاؤ میں بگ بینگ کے صرف ایک لمحے بعد سو ہزار ملین ملین کا صرف ایک حصہ کمی واقع ہو جاتی تو کائنات اس حجم کو پہنچنے سے کافی پہلے تباہ ہو جاتی جس پر آج قائم ہے ۔"
دوسری طرف کائنات کا نکتۂ پھیلاؤ اگر اتنا ہی بڑھ جاتا تو ستارے چاند سیارے یا گیلیکسیز کبھی وجود میں نہ آتیں اور ہم یہاں نہ ہوتے ۔
پھر مزید یہ کہ زندگی کو وجود میں آنے کے لئے ہمارے سولر سسٹم کی کنڈیشنز کا خصوصاً ہمارے سیارے کے حالات کا سازگار یا موزوں ترین ہونا انتہائی ضروری تھا ۔
مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ اگر اس سیارے پر آکسیجن نہ ہوتی تو ہم سانس لینے کے قابل نہ ہوتے ۔ آکسیجن نہ ہوتی تو پانی بھی نہ ہوتا ۔ پانی نہ ہوتا تو نہ بارش نہ خوراک ۔ کچھ بھی نہ ہوتا ۔ دوسرے مرکبات جیسے ہائڈروجن ۔ نائٹروجن ۔ سوڈیم ۔ کاربن ۔ کیلشیم اور فاسفورس بھی زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہیں ۔
مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔
زندگی کے لئے ہمارے سیارے کا حجم ۔ درجۂ حرارت ۔ دوسرے سیاروں سے تعلق اور فاصلہ ۔ کیمیائی مرکبات ۔ سورج اور چاند کا بالکل اسی ترتیب سے ہونا ضروری تھا جس ترتیب سے یہ قائم کیئے گئے ۔
ایسے نہ جانے کتنے معاملات ہیں جن کا انتہائی موزوں ترین ہونا ضروری تھا ورنہ یہ سب کچھ سوچنے کے لئے ہمارا وجود ہی نہ ہوتا ۔
جو سائنسدان خدا کو مانتے ہیں وہ اس انتہائی پیچیدہ مگر ایکوریٹ کیلکولیشن کو مان سکتے ہیں مگر ملحد اور اگناسٹک سائنسدان بھی اسے اتفاق قرار دینے سے قاصر ہیں ۔
اگناسٹک سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ لکھتے ہیں :
"قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ ان اعداد و شمار کا یقین کی حد تک ایکوریٹ ہونا زندگی کے وجود کے لیئے انتہائی ضروری تھا ۔"
سوال یہ ہے کہ اعداد و شمار کی اس انتہائی پیچیدہ ایکوریسی کو اتفاق قرار دیا جا سکتا ہے ؟
نظریہ امکانات کے مطابق ہماری زندگی کے محض حادثاتی طور پر یا اتفاقیہ وجود میں آجانے کا امکان کتنا تھا ؟
سائنسدانوں کے مطابق یہ ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین باریوں میں صرف ایک بار تھا ۔
اس سے کہیں زیادہ ممکن ہے کہ ایک ریت کے ذرے کو مارک کر کے کسی ساحل کی ریت میں ملا دیا جائے اور ایک اندھے کو دنیا کے تمام ساحلوں کی تمام ریت میں سے اس ایک مخصوص ذرے کو ڈھونڈنے کا ٹاسک دیا جائے اور وہ صرف ایک کوشش میں کامیاب ہو جائے ۔
یہ وہ کائنات ہے جسے سائنسدان جتنا سمجھتے جا رہے ہیں اتنا الجھتے جا رہے ہیں ۔
آپ کسی سائنسدان کے پاس جائیں اور اس سے کہیں کہ جو ہستی یہ کائنات تخلیق کر سکتی ہے کیا وہ اس بات پر بھی قادر ہو سکتی ہے کہ ایک کنواری خاتون کو بغیر کسی مرد کے حاملہ کر دے ؟
وہ کہے گا کہ یہ سوال ہی بچکانہ ہے ۔ کیوں کہ اس پیچیدہ ترین کائنات کی تخلیق میں اس سے کروڑھا گنا بڑے معجزے بھرے پڑے ہیں ۔ دیکھنے والی آنکھ چاہیئے ۔
نظریہ ارتقاء پڑھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زندگی کا آغاز ایک جرثومے سے ہوا ۔ یہ جرثومہ افزائش نسل کے لیئے تقسیم کا طریقہ استعمال کرتا تھا ۔ پھر اس کا ارتقاء پودے میں ہو گیا اور افزائش نسل کا طریقہ بدل گیا ۔ جنسی تولید کا طریقہ سیکھ لیا ۔ پھر اس کا بھی ارتقاء آبی جانور میں ہو گیا ۔ اب جنسی اختلاط کا طریقہ وجود میں آیا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس پہلے جاندار نے اس زمین پر پہلی مرتبہ جنسی اختلاط کیا وہ خود کیسے پیدا ہوا ؟ جب کے اس کے ماں باپ نے جنسی اختلاط کیا ہی نہیں ؟
یاد رہے کہ یہ سائنس کا علم ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ ارتقاء کو مانیں گے تو یہ ماننا ہی پڑے گا کہ زمین پر جب زندگی وجود میں آئی تو جنسی اختلاط کا طریقہ موجود ہی نہیں تھا ۔ یعنی نہ اسپرم نہ ایگ نہ زائگوٹ ۔
جنسی اختلاط کا طریقہ ارتقاء کا نتیجہ ہے تو یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ کسی نہ کسی مخلوق نے پہلی مرتبہ جنسی اختلاط ضرور کیا تھا ۔ پھر یہ بھی یقینی ہے کہ جس مخلوق نے پہلی بار جنسی اختلاط کیا اس کے ماں باپ نے جنسی اختلاط نہیں کیا ۔
تو پھر وہ پیدا کیسے ہوا ؟
آپ کہہ رہے تھے کہ سائنس جو کہتی ہے وہ ری پروڈیوس ایبل ہوتا ہے ۔ ذرا اس پورے طریقہ کار کو ری پروڈیوس کر کے دکھائیں مجھے ۔ یعنی ایک ایسا جاندار جو جنسی اختلاط کے ذریعے افزائش نسل کرتا ہو لیکن اس کی اپنی پیدائش جنسی اختلاط سے نہ ہوئی ہو ۔
اس موضوع پر ریسرچ کر لیں ۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ کی پیدائش پر ریسرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں بچے گی ۔
ان شاء اللہ ۔

Comments

Popular posts from this blog

Fall of Adam and Eve

John Milton's chef d'oeuvre, Paradise Lost , the greatest epic (arguably!) written so for in the world, has significance of a universal level in more ways than one. First, because it concerns the entire scheme of Creation from its very dawn to the Day of Judgement, and even after. The human element can never be overlooked in this connection, since it is man, primarily, who has had to face the stigma in the form of Fall from Grace (though redeemed afterwards), and who has to encounter rigours of life on this planet earth. Second because the never-failing concept of Sin, Repentance and Redemption is there to stay till the very last. Third, because the stratagem God has in perspective does have to come into effect, come what may be. Moreover because the ground realities never change in this world of change and decay, and because man has to compromise with these facts, even at the cost of his liberty __ and innocence. As we proceed with the action narrated at length thr...

What makes you happy? #Nature_is_Beautiful #Serenity #Natural_Phenomena

via IFTTT

#What_Men_Want #Relationship_Advice #Beautiful_Message #Getting_Across

via IFTTT