Skip to main content

ملو ہم سے از فرحت عباس شاہ

ملو ہم سے

ملو ہم سے
کہ ہم بچھڑے ہوئے ہیں
ہمارے خواب آنکھوں سے جدا
تعبیر جیون سے
ہمارے آنسوؤں میں آرزوؤں کی کسک ویسی نہیں اب کے
دلوں میں درد بھی پہلو بدل کر اور بن بیٹھا
ہماری شام اب روئے تو پلکوں سے جدائی کی جگہ مایوسیوں کا غم ٹپکتا ہے
ہمارا دل دلِ ویران ہو کر بھی کسی کے درد کی خواہش نہیں کرتا
ملو ہم سے
ہمارا حال بھی دیکھو
محبت کے مراحل جس طرح سے سر کیے ہم نے
لہو کو بھی پسینہ آ گیا اکثر
ہمارے چیتھڑے پاگل ہوا جیسے اڑا لاتی تھی بستی سے
شب حیران سے پوچھو
شب ویران حیرت سے ہمیں تکتی تو کہتی
مجتمع ہو کر یہاں سے لوٹ آخر کیوں نہیں جاتے
ملو ہم سے
ہمیں تنہائی کہتی ہے
مجھے بھی ساتھ ہی رکھو
ہمیں تنہائی یہ کہتی ہے اور دامن پکڑ کر ساتھ چل پڑتی ہے بستی میں
وہ جس شب
تم نے آنے کا کہا لیکن نہیں آئے
اسی پل سے ستارے رات سے بچھڑے ہوئے ہیں
اور کئی جنگل بھری برسات سے بچھڑے ہوئے ہیں
اب کہاں ہو تم
ملو ہم سے ،ملو ہم سے
ہم اپنی ذات سے بچھڑے ہوئے ہیں
ہاں ملو ہم سے
ہمیں زخمی تمناؤں کے افسردہ غلافوں اور ردائے کرب میں پالا گیا ہے
اور ہماری پرورش جس ہجر کے ہاتھوں ہوئی ہے
عمر سے بے سائبانی کے کٹہرے میں کھڑا
اپنی صفائی دے رہا ہے
جو عدالت مر چکی ہو
اس عدالت میں کسی کی کون سنتا ہے
یا آخر کون سن سکتا ہے ایسے میں
جہاں خود مدعی ملزم ہو
اور الزام کا مطلب جہاں بس جرم ہو
تو فیصلے میں دیر کا ہے کی
ملو ہم سے
ہمارے فیصلے بھی ہو چکے ہیں بن گواہوں کے
فقط تقدیر کی مانی گئی ہے
ہم مقدر کے ستارے سے گرے
امید کی اجڑی ہوئی شاخوں پہ لٹکے ہاتھ اور پاؤں ہلاتے جا رہے ہیں
ہم یہی کچھ ہیں
ہمارے نام جن ٹیلوں پہ کوئی دھوپ لکھ کر رکھ گئی تھی جل چکے ہیں اور
ہمارا رزق جن رستوں پہ کوئی بھوک پھیلا کر
ہماری کاوشوں پر ہنس گئی تھی
ہم وہی کچھ ہیں
ہمیں اب آخری لمحے کسی دہلیز پر آنکھیں بچھانے دو
انا نے کب نہیں توڑا ہمیں
اب آخری لمحے کسی دہلیز پر آنکھیں بچھانے دو
ہمیں ملنے ملانے دو
ملو ہم سے
ہمارے درد سے کھیلو
ہمیں لاچار رہنے دو
مری جاں تم ستارے توڑ لانے کی جہاں بھی بات کرتے ہو
ہمارے ہاتھ روتے ہیں
ہمارا دل بھی روتا ہے
تمھارے بھولپن کی مشکلیں یا مشکلوں کا بھولپن
اکثر ہمیں بیمار رکھتا ہے
ملو ہم سے
ہماری خاک راہوں میں اڑاؤ
اور ہماری گرد سے کھیلو
زباں پر نا سمجھ باتوں کے الزامات کی بوجھاڑ کر دو
اور سکوت زرد سے کھیلو
گلے لگ کر ہماری خواہشوں کی برف کے اثرات جھیلو
اور سانسوں کی ہوائے سرد سے کھیلو
سمندر پار کرنے کا مصمّم خواب دیکھیں
اور پھر اس کی عجب تعبیر سے نظریں چرائیں
کیسا لگتا ہے ؟
ہم اپنے ساحلوں پر ادھ کھلے جن بادبانوں سے بندھے ہیں بادباں
کب ہیں
ملو ہم سے
صلیبوں نے بھلا کب کشتیاں اس پار لگنے دیں
ہماری رات ہم سے بات کرتی ہے تو برساتیں برستی ہیں
ہماری شام تیرا نام لیتی ہے تو کتنے کام آ پڑتے ہیں سر پر
اور ہماری دوپہر جتنا سفر کر لے کہیں چھاؤں نہیں ملتی
ہم ایسے ہی ہیں اپنی سائبانی کے
ملو ہم سے
ہم ایسے ہی ہیں اپنی رائیگانی کے، اور اپنی زندگانی کے
ملو ہم سے
ہمارا ہاتھ دیکھو
اور بتاؤ بھی
لکیریں اس طرح سے کب تلک الجھی رہیں گی خوش نصیبی سے۔۔
 بتاؤ!
کب تلک اک دوسرے کو کاٹتی مٹتی رہیں گی بد نصیبی کی سیاہی سے
ہمارا اس قدر ویران ہو جانا کبھی تبدیل بھی ہو گا
ہمارا اس قدر سنسان ہو جانا، اجڑ جانا کبھی آباد بھی ہو گا
ہماری خوش نمائی کی حقیقت بھی ہمیں معلوم ہے
کیا سب، یہ سب کی سب اداکاری ہمیشہ جاری و ساری رہے گی زندگانی بھر
ہماری آنکھ ہنستی ہی رہے گی
اور دل روتا رہے گا کیا
یونہی ہم بولتے ہی جائیں گے بے بات باتوں پر
مگر اندر کوئی چپ سادھ کے یونہی ہمیں تکتا رہے گا درد میں ڈوبی
نگاہوں سے
ملو ہم سے
کبھی ہم کو کسی فٹ پاتھ پر چلتا ہوا دیکھو
ہمارے مضطرب بازو خلا میں ایک دوجے کی مخالف سمت میں اٹھتے، پلٹتے اور ٹکراتے ہیں آپس میں
کہ جیسے ہم خود اپنے آپ میں جکڑے چھڑانے کی
کسی کمزور سی اک کشمکش میں ہوں
ہمیں دیوار سے لگ کر کہیں بیٹھا ہوا دیکھو
اداسی گود میں بھر کر کسی غمناک افسردہ دلی سے سوچ میں ڈوبے
زمانے سے کٹے، اجڑا گھروندا لگ رہے ہوتے ہیں جب بھی ہم
پرندے ہم پہ روتے ہیں
ہوائیں سوگواری سے ہمیں سہلا رہی ہوتی ہیں
ہمدردی کے جذبے سے
ہمیں سویا ہوا دیکھو
کبھی دیوار پر چھت پر کبھی کرسی کے پائیوں پر
کتابوں سے اٹے ٹیبل
قلم کی کیپ یا گلدان کے سوکھے ہوئے پھولوں پہ نظریں گاڑ کے
جانے کہاں کھوئے ہوئے بکھرے ہوئے رہتے ہیں دیوانے
ملو ہم سے
ہمیں ڈھونڈو
ہمیں ڈھونڈو کہ اکثر ہم خود اپنے جسم میں ہوتے ہوئے بھی دور اتنی دور
ہوتے ہیں کہ ہم کو لوٹ آنے میں بھی خاصا وقت لگتا ہے
ہم اپنی ذات میں کافی میسر ہو کے بھی کافی نہیں ہوتے
ہم اپنے ذکر میں ملتے ہیں پھر بھی بات پوری ہو نہیں پاتی
ہمیں ڈھونڈو
ہم اپنی شاعری میں ذرہ ذرہ، قطرہ قطرہ بٹ چکے ہیں
اور کسی کل کو ترستے ہیں
ہمارا مرکزہ جانے کہا ں تقسیم کر بیٹھی ہے محرومی
ہمارا دائرہ تنہائیوں نے توڑ ڈالا ہے
ہمیں بے سمتیوں نے اس طرح سے موڑ ڈالا ہے کہ اب کو ئی
تعین ہی نہیں باقی
ہمارا نقش پا تک خاک نے ایسے الٹ مارا ہے جیسے
بدنصیبی محنتوں کے ساتھ کوئی ہاتھ کرتی ہے
ہمیں ڈھونڈو
ہمیں چہرہ بدلنے میں مہارت ہے
ہم اپنے درد کو، احساس کو، جذبے کی کوملتا کو
اپنی نرم خوئی کو
ہم اپنے سوز کو آنکھوں سے ظاہر کیوں کریں
اپنی کراہوں کو زباں پر کس لیے لائیں
ہم اپنے آنسوؤں کو اپنے رخساروں پر آخر کیوں برسنے دیں
زمانہ تو زمانہ ہے
ہم اپنا آپ آخر کیوں کریں اس کے حوالے
اور کیونکر سونپ دیں اس کو دل و جاں راکھ کر دینے کو
سب کچھ خاک کر دینے کو
آخر کیوں کریں اس کے حوالے روح بھی اپنی
۔۔ملو ہم سے
ہمارے شہر میں آؤ
بہت آرام ہے، خوشیوں کی خواہش، خون روتی ہے
بہت ہی امن ہے قاتل سکوں میں ہیں، انھیں پورا تحفظ ہے
ملو ہم سے
ہمارے شہر کی گلیاں، ہمارے درد سے بوجھل وریدوں کی طرح ہر سو بہت
ویران پھیلی ہیں
ہمارے چوک آئے دن کسی کی لاش پر ماتم کے مرکز ہیں
ہمارے شہر کے بازار اک دوجے کی جیبیں کاٹنے کی
تربیت گاہیں بنے مقصد میں پورے ہیں
ہمارے گھر ہمیں حیران ویرانی سے تکتے ہیں تو لگتا ہے
ہمارے اور ان کے درمیاں کچھ وحشیانہ سی عجب اک اجنبیت ہے
ہمارے شہر کے گلشن محبت کرنے والوں کی بجائے اور لوگوں سے بھرے رہتے ہیں اکثر ہی
وہاں مل بیٹھ کر ایک دوسرے سے پیار کی باتیں نہیں ممکن
بہت ہی خوف آتا ہے
وہاں پیڑوں پہ کوئل کی جگہ کوے ہیں
کوکو کی جگہ پر کائیں کائیں کی
صدائیں رہ گئی ہیں دل جلانے کو
ہمارے شہر کی اک اک سڑک پر موت چلتی ہے
کئی گلیاں تو قدموں کو گوارا ہی نہیں کرتیں
دکانوں پر سبھی اشیاء ہماری آرزوؤں پر لپکتی ہیں، جھپٹتی ہیں
تعلق میں بھرے بازار بے زاری سے آگے بڑھ نہیں سکتے
ہجوم بے کراں بے تاب بھاگا پھر رہا ہے
راستوں کی بد شگونی پر
وسائل کے مسائل میں گھرے ہم اپنے سینے میں کسی بھی درد کے سائل
سے منکر ہیں۔۔۔
ملو ہم سے
مگر کچھ دور سے، تا کہ ہماری روشنی روشن رہے
ورنہ اندھیرا ہی اندھیرا ہے
ہمارے شہر میں آؤ
تمھیں تاریکیاں سہنے کی عادت ڈال دیں گے ہم
ملو ہم سے
ہمیں اعزاز حاصل ہے
ہم اپنے زخم شانوں پر سجائے
شان سے پھرتے ہیں بستی میں
ہمارے زخم زندہ ہیں
کسی کے عیب کی جھوٹی گواہی پر نہیں مائل
کسی کے جھوٹ کی بابرکتی کے بھی نہیں قائل
محبت نے ہمیں وقتاً فو قتاً جس طرح چرکے لگائے
اور وفا نے خون رو رو کر جو سب وعدے نبھائے
زخم بن بن کر
ہماری سرخروئی کے صلے میں پرورش پاتے رہے ہیں
اب ہم اپنی بے قراری پر بہت خوش ہیں
کسک سچی ہو اور دل میں کہیں کوئی سیہ کاری نہ بیٹھی ہو
تو لا چاری نہیں آتی
ہمارے زخم طاقت ہیں
ہمیں تاریک رستوں پر دیے بن بن کے آگے ہی بڑھاتے ہیں
ہمیں اعزاز حاصل ہے
ہمارے زخم سچے ہیں
خود اپنے آپ کو بھی مندمل ہونے نہیں دیتے

فرحت عباس شاہ
(کتاب: ملو ہم سے)

Comments

Popular posts from this blog

Fall of Adam and Eve

John Milton's chef d'oeuvre, Paradise Lost , the greatest epic (arguably!) written so for in the world, has significance of a universal level in more ways than one. First, because it concerns the entire scheme of Creation from its very dawn to the Day of Judgement, and even after. The human element can never be overlooked in this connection, since it is man, primarily, who has had to face the stigma in the form of Fall from Grace (though redeemed afterwards), and who has to encounter rigours of life on this planet earth. Second because the never-failing concept of Sin, Repentance and Redemption is there to stay till the very last. Third, because the stratagem God has in perspective does have to come into effect, come what may be. Moreover because the ground realities never change in this world of change and decay, and because man has to compromise with these facts, even at the cost of his liberty __ and innocence. As we proceed with the action narrated at length thr...

What makes you happy? #Nature_is_Beautiful #Serenity #Natural_Phenomena

via IFTTT

#What_Men_Want #Relationship_Advice #Beautiful_Message #Getting_Across

via IFTTT