اپنے جیسوں کے لیے ایک نظم
.................
میں بے عمل تو سدا سے تھا
پر میں بے عقیدہ کبھی نہیں تھا
پلٹ کے دیکھوں تو عمر بھر میں
کسی بہت ہی بڑی ،بہت ہی بڑی حقیقت کو
میرا دل بھی
یہ وسوسہ زاد میرا دل بھی
ہمیشہ حق الیقین کی طرح جانتا تھا
گمان آباد کا یہ ساکن
یقین کو عشق مانتا تھا
میں اس حقیقت کی سرحدوں سے
کبھی بھی واقف نہیں رہا ہوں
میں اپنی لا علم آگہی خوب جانتا ہوں
یہ وہ حدیں ہیں جو میری حد سے بہت ورا ہیں
مگر یہ احساس جاگزیں تھا
یہاں کوئی ہے جو اس جہاں میں مرے لیے ہے
کہیں کوئی ہے جو میری مٹی کو پالتا ہے
کوئی بہت ہی قریب ہستی
جو کائناتوں کے پار سے مجھ کو دیکھتی ہے
اس ایک ہستی پہ میرا ایقان کل بھی تھا
اور یہی مری جان آج بھی ہے
خدائے واحد پہ میرا ایمان آج بھی ہے
تمام اسباب ساری کڑیوں کو دیکھ کر بھی
میں ایک غیبی مدد کو نادیدہ دیکھتا تھا
مرے جلو میں وہ غیر مخلوق ہاتھ رہتا
ہمیشہ جو میرے ساتھ رہتا
میں گرچہ اس لمس سےکبھی آشنا نہیں تھا
مگر یہ احساس تھا مجھے بھی کہ زندگی کے ہر ایک پل میں
مری کسی ساعتِ عمل میں
وہ ہاتھ مجھ سے جدا نہیں تھا
کبھی کبھی کیا ،یہاں بہت بار ایسا ہوتا
بہت کٹھن راستوں پہ چل کر
کسی طرح میں بھی کامیابی کے خاص رستے تک آپہنچتا
کہ جس سے میرے تمام ساتھی گزر چکے تھے
تو دیکھتا اب وہ خاص رستہ مرے لیے بند ہوچکا ہے
(وہ جانتے ہیں جنہیں کبھی اپنی اس اذیت کا تجربہ ہے )
میں اس اذیت میں جیتا مرتا
میں بند رستے کا اک مسافر جب اپنی قسمت پہ گریہ کرتا
تو جلد ہی مجھ پہ کھلنے لگتا
کہ راستے کا یہ بند ہونا تو اک عطا تھی
تبھی اچانک اُسی گھٹا ٹوپ تیرگی میں
کہیں سے کچھ قمقمے سے جلتے
جو میرا رستہ اجال دیتے
نہ جانے کیسے وہاں سے مجھ کو نکال دیتے
کوئی تو تھا جو کہیں اچانک
اک ایسی رہ مجھ پہ کھول دیتا کہ جو مری رہ گزر نہیں تھی
وہ منزلیں میرے ہاتھ آتیں
کہ جن کی مجھ کو خبر نہیں تھی
میں نارسیدہ کبھی نہیں تھا
سعود میں بے عمل تھا لیکن میں بے عقیدہ کبھی نہیں تھا
قسم ہےمجھ کو خدائے واحد کی جس کی مٹھی میں میرا دل ہے
میں بے یقینی کی آندھیوں میں
بہت ہی کمزور پیڑ کی طرح کانپتا تھا
ہزار شبہات دل پہ چھاتے
شکوک کے گردباد مرغولہ وار آتے
کوئی تردد ،کوئی تامل، کوئی تذبذب
جو میرے برگ و ثمر تھے ان کو گراتا جاتا
میں پیڑ تھا جو لرزتا اور کپکپاتا جاتا
مگر بالآخر یہ تیز جھکڑ سکون کے سانس میں بدلتے
تو علم ہوتا کہ پیڑ اپنی جگہ کھڑا ہے
تو رات آتی تھی اور دن سے اچٹ کے یوں کرچی کرچی ہوتی
کہ جیسے سورج کی روشنی میں سیاہ شیشہ بکھر گیا ہو
تری قسم ہے !
یہ سب یقین اور بے یقینی بنانے والے !
تری قسم ہے
یہ بات تیری نہیں ہے میرے وجود کی ہے
میں اپنے ہونے کے اور نہ ہونے کے بیچ کی عمر جی رہا ہوں
جہاں گزرتی نہ تھی وہیں ساری عمر گزری
مگر وہاں بھی
ہنسی خوشی ہی رہا ہوں اور واقعی رہا ہوں
خدائے یکتا! تو میرا دل خوب جانتا ہے
تجھی پہ کل تھا تجھی پہ ایمان آج بھی ہے
تجھے تو یہ علم ہے کہ ان تیزآندھیوں سے
یہ دل پریشان آج بھی ہے
یہ پیڑ اپنی جڑیں نہ چھوڑے
کہ اس کا امکان آج بھی ہے
(سعود عثمانی)
https://youtu.be/Hqr8uiwIbIQ
Comments
Post a Comment