ایک عمر کی اجرت
سامنے مرے گھر کے
اک اکیلا دروازہ
اپنی بوڑھی سوچوں میں
گم سا، کھویا کھویا سا
خود میں ڈوبا رہتا ہے!
بے زبان سوچوں کی
دونوں پاٹ پر اس کے
ان گنت دراڑیں ہیں!
اک اداس تنہائی
اس پہ تالا ڈالے ہے!
نامراد چوکھٹ پر
زنگ کھاتی بینائی
ٹھوکریں سی کھاتی ہے!
اک مہیب سناٹا
چھوٹی چھوٹی سانسوں میں
اس کی جالا ڈالے ہے!
خود سے بےتعلق سا
خود سے بچھڑا بچھڑا سا
خود کو یوں گنواتا ہے!
اپنی اجڑی ڈیوڑھی کو
جانے کن امیدوں سے
لیپتا ہے سارا دن؟
سارا سارا دن جانے
کون سے سوالوں کا
سوت کاتا کرتا ہے؟
ایک عمر کی اجرت
ٹوٹی ٹوٹی سی سانسیں
زنگ کھاتی بینائی
اک مہیب سناٹا
اک اداس تنہائی
باندھے اپنی گٹھڑی میں
جانے کس کے آنے کی
راہ تکتا رہتا ہے؟
جانے میری سوچوں سے
کیوں الجھتا رہتا ہے؟
(نسیم سیّد)
Comments
Post a Comment