ملو ہم سے ملو ہم سے کہ ہم بچھڑے ہوئے ہیں ہمارے خواب آنکھوں سے جدا تعبیر جیون سے ہمارے آنسوؤں میں آرزوؤں کی کسک ویسی نہیں اب کے دلوں میں درد بھی پہلو بدل کر اور بن بیٹھا ہماری شام اب روئے تو پلکوں سے جدائی کی جگہ مایوسیوں کا غم ٹپکتا ہے ہمارا دل دلِ ویران ہو کر بھی کسی کے درد کی خواہش نہیں کرتا ملو ہم سے ہمارا حال بھی دیکھو محبت کے مراحل جس طرح سے سر کیے ہم نے لہو کو بھی پسینہ آ گیا اکثر ہمارے چیتھڑے پاگل ہوا جیسے اڑا لاتی تھی بستی سے شب حیران سے پوچھو شب ویران حیرت سے ہمیں تکتی تو کہتی مجتمع ہو کر یہاں سے لوٹ آخر کیوں نہیں جاتے ملو ہم سے ہمیں تنہائی کہتی ہے مجھے بھی ساتھ ہی رکھو ہمیں تنہائی یہ کہتی ہے اور دامن پکڑ کر ساتھ چل پڑتی ہے بستی میں وہ جس شب تم نے آنے کا کہا لیکن نہیں آئے اسی پل سے ستارے رات سے بچھڑے ہوئے ہیں اور کئی جنگل بھری برسات سے بچھڑے ہوئے ہیں اب کہاں ہو تم ملو ہم سے ،ملو ہم سے ہم اپنی ذات سے بچھڑے ہوئے ہیں ہاں ملو ہم سے ہمیں زخمی تمناؤں کے افسردہ غلافوں اور ردائے کرب میں پالا گیا ہے اور ہماری پرورش جس ہجر کے ہاتھوں ہوئی ہے عمر سے بے سائبانی کے کٹہرے میں کھڑا ...